اردو 35 بے وفائی شاعری
1: تیری وفا کے تقاضے بدل گئے ورنہ
ہمیں تو آج بھی تم سے عزیز کوئی نہیں
2: خدا نوازے تجھے مجھ سے بہتر
پھر بھی تو میرے لیے ترسے
3: اگر کوئی آپ کو کھو دینے کے بعد خوش ہے
تو یقین مانو اس کو آپکی پرواہ کبھی تھی ہی نہیں
4: اِتنا بھی ہم سے ناراض نہ ہوا کر
بد نصیب ضرور ہیں پر بے وفا نہیں
5: کوئی نہیں تھا دل میں اس کے سِوا
پھر بھی توڑ کر دیکھا اس نے میرا دل
6: اگر وہ مجھے مل جاتا تو میں دُنیا بھر کی
کتابوں سے بے وفا لفظ مٹا دیتی
7: دوسرے لوگ بھلا کیسے وہ دُکھ سمجھیں گے؟
تیسرے شخص سے جب کوئی خبر ملتی ہے
8: وہ شخص بھی اپنے ہنر میں کیا کمال رکھتا ہے
محبت کسی کے ساتھ اور وفا کسی کے ساتھ رکھتا ہے
9: اُس کے تبسم کی معصومیت پہ نہ جا
بے وفا لوگ بڑے فنکار ہوا کرتے ہیں
10: ہائے اتنی جلدی بھول گیا ہم کو
یہ ہنر تو نہیں آتا ہم کو
11: ہم اُسے یاد بہت آئیں گے
جب اُسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
12: وفا جس سے کی، بے وفا ہو گیا
جسے بُت بنایا، خدا ہوگیا
13: وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
14: ہم سے کیا ہوسکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
15: اب ہچکیاں آئیں تو پانی پی لینا
یہ وہم چھوڑ دینا کہ ہم نے تمہیں یاد کیا
16: وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
17: وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
18: اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
19: ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
20: تمہارا کیا بگاڑا تھا جو تم نے توڑ ڈالا ہے
یہ ٹکڑے نہیں لوں گا، تم دِل بنا کر دو
21: پہلے کاٹ لیجیے اِک چِلہّ وفا کا
پِھر شوق سے اُلفت کی تبلیغ کیجیے
22: وہ بے “وفاء” نہ تھا اسے” بدنام” نہ کرہزاروں” چاہنے والے تھے وہ کس کس سے “وفا “کرتا
23: ہم ہی وفا شکن تھے، چلو ہم ہی بے وفا…
تم تو وفا شعار تھے، تم کیوں بدل گئے…؟؟
24: کہاں کہاں سے مٹاؤ گے__یادیں میری
اے بے وفا!ہم تو تجھے ہر موڑ پہ یاد آئیں گے
25: ہر انسان دل کا برا اور بے وفا نہیں ہوتا
بجھ جاتا ہے دیا تیل کی کمی سے
ہر بار قصور ہوا کا نہیں ہوتا
26: وفائیں سیکھ لو ہم سے
کہیں کرنی نہ پڑ جائیں
27: تیری بے وفائی کا غم تو نہیں
مگر تو بےوفا ہے یہ بھی غم کم نہیں
28: بے وفا وقت تھا،تم تھے،یا مقدر میرا
بات اتنی ہے کہ انجام جدائی نکلا
29: وہ آئے تھے! اپنی وفاوں کا حساب کرنے
کتاب عشق کھولی تو قرض دار ہو کے چلے گئے
بےوفا یار
30: کرنا ہے تو چائے کا ذکر کریں
محبوب تو سب کے ہی بےوفا ہوتے ہیں
31: جب وفا کا ذکر آتا ہو گا
اے بےوفا! تجھے شرم تو آتی ہو گی
32: ممکن ہے، اسے میسر ہوں وفائیں
ہم سا بھلا اس پے کون مرتا ہوگا
33: روٹھنے سے کیا ہو گا، اے بےوفا
آؤ مل کر معذرت کر لیں
34: چلے جانے دو اس بےوفا کو کسی غیر کی آغوش میں
جو اتنی چاہت کے بعد بھی میرا نہ ہوا کسی اور کا کیا ہوگا
35: اتنے سستے کہا تھے ہم
بس تیرے واسطے رعایت کی تھی
Comments
Post a Comment